عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی ساتویں دلیل

عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی ،اپنے طور پر اپنے اِس کام کو سُنّت کے مُطابق ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ''' نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اِس دِن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی ، خود ولادت پر خوشی منانا ہے '''

جواب:

اِن کی اِس بات کا ایک حصہ تو صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن پیر یعنی سوموار ہے ، اور وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے ، اِس سچ سے اِنکار کفر ہے کیونکہ صحیح مُسلم کی حدیث ١١٦٢ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان ملتا ہے:::

(((((ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ ::: اِس دِن میں پیدا ہوا تھا اور اِس دِن مُجھ پر وحی اُتاری گئی تھی " یا (یہ فرمایا کہ) اِس دِن مجھے مبعوث کیا گیا تھا )))))(صحیح مسلم /کتاب الصوم /باب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ)

لیکن یہ کہاں ہے کہ اِس دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یا کِسی ایک صحابی نے ، یا تابعین نے یا تبع تابعین نے ، یا اُمت کے ائمہ میں سے کِسی نے بھی کوئی ''' عید ''' منائی ، اور یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس دِن روزہ رکھنے کی وجہ اُن کی پیدائش کی خوشی ہے ''' عید میلاد ''' منوانے والوں کی طرف سے خلافءِ حقیقت بات کیوں کی جاتی ہے اِسکا فیصلہ اِن شاء اللہ آپ لوگ خود بخوبی کر لیں گے ، جب آپ صاحبان کو پتہ چلے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِس دِن یعنی پیر کا روزہ کیوں رکھا کرتے تھے؟ ذرا توجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے یہ چند اِرشادات ملاحظہ فرمائیے :

ابو یُریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا (((((تُعْرَضُ أَعْمَالُ النَّاسِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّتَيْنِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ إِلَّا عَبْدًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ اتْرُكُوا أَوْ ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَفِيئَا ::: پیر اور جمعرات کے دِنوں میں اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اُس اِیمان والے کی مغفرت کر دیتا ہے جِس نے اللہ کے ساتھ کِسی کو شریک نہ کیا ہو ، سوائے اُنکے جو آپس میں بغض رکھتے ہوں تو کہا جاتا ہے ( یعنی اِنکے معاملے میں کہا جاتا ہے ) اِنکو مہلت دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں ))))) ( صحیح مسلم /کتاب البر والصلۃ /باب النھی عن الشحناء و التھاجر ، صحیح ابنِ حبان ، مجمع الزوائد )

اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ""" آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ """ تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا ((((( پیر اور جمعرات کے دِن اللہ بندوں کی مغفرت کر دیتا ہے سوائے ایک دوسرے کو چھوڑ د ینے والوں کے ( یعنی ناراضگی کی وجہ سے ایک دوسرے کو چھوڑ دینے والے تو ) اُن چھوڑ دینے والے کےلیے کہا جاتا ہے کہ اِنہیں صلح کرنے تک کی مہلت دی جائے)))))

سُنن الدارمی /حدیث ١٧٥٠ ، مصباح الزُجاجہ /حدیث ٦٢٩ ۔ اِمام احمد الکنانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ہے ۔

اوپر بیان کردہ احادیث کے بعد کِسی بھی صاحبِ عقل کو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پیر کے دِن کا روزہ اپنی پیدائش کی خوشی میں نہیں بلکہ اِس دِن اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش ہونے کی وجہ سے رکھا ہے ۔

اگر پیر کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش ہوتا تو کم از کم وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِس کی ترغیب ہی دیتے ، مندرجہ بالا دو احادیث کے بعد یہ حدیث بھی بغور ملاحظہ فرمائیے ۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں کتاب الصیام / باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام مِن کلِّ شہر میں ابی قتادہ رضی اللہ عنہُ سے روایت کیا کہ ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اُن کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم غصے میں آ گئے ( تو رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو غصے میں دیکھ کر ) عُمر ( رضی اللہ عنہ ُ ) نے کہا "ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں اور اِسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر ، اور ہماری بیعت ، بیعت ہے ( یعنی جو ہم نے محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بیعت کی ہے وہ سچی پکی بیعت ہے)"۔

ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے صیام الدہر ( ہمیشہ مستقل روزے میں رہنا ) کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا((((( لا صام و لا اَفطر ::: ایسا کرنے والے نے نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا ))))

، پھر ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ ''' پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دو دِن روزہ رکھنے اور ایک دِن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

((((( و مِن یُطیقُ ذَلِکَ ::: ایسا کرنے کی طاقت کون رکھتا ہے؟ )))))

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ایک دِن روزہ رکھنے اور دو دِن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :

(((((لیتَ ان اللہ قَوَّانا لَذَلِکَ ::: کاش اللہ ہمیں ایسا کرنے کی طاقت دے دے )))))

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ایک دِن روزہ رکھنے اور دو ایک افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

((((( ذَلِکَ صَومُ اَخِی داؤد (علیہ السلام ) ::: یہ میرے بھائی داؤد (علیہ السلام ) کا روزہ ہے )))))

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پیر (سوموار) کے دِن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :

((((( ذَلِکَ یَومٌ ولدت ُ فِیہِ و یُومٌ بُعِثت ُ فِیہ ::: اِس دِن میری پیدائش ہوئی اور اِس دِن میری بعثت ہوئی (یعنی مجھے رسالت دی گئی )))))

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:((((( صومُ ثلاثۃِ مِن کُلِّ شھر ، و رمضانَ اِلیٰ رمضانِ صومُ الدہر::: رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دِن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے )))))

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے یوم عرفات کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:((((( یُکَفِّر ُ السَّنۃَ الماضِیۃَ و الباقِیۃَ ::: ایک پچھلے سال اور رواں سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے ))))) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دس محرم کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

((((( یُکَفِّر ُ السَّنۃَ الماضِیۃَ ::: پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے )))))

اِس حدیث کے اِلفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مختلف نفلی روزں کے بارے میں پوچھا گیا اور اُنہوں نے اُسکی وجہ بتائی اور آخر میں یہ فرمایا کہ (((((( رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دِن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے )))))یعنی سوموار کا روزہ رکھنے کی کوئی ترغیب بھی نہیں دِی ، کوئی اضافی ثواب نہیں بتایا ، جیسا کہ عرفات اور عاشوراء کے روزوں کا فائدہ بیان کرنے کے ذریعے اُن کی ترغیب دی ہے ، تو ، اِس حدیث میں زیادہ سے زیادہ سوموار کو نفلی روزہ رکھنے کا جواز ملتا ہے ، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش منانے کا،

میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کے بیان کردہ فلسفے کے مُطابق ہونا تو یہ چاہیئے کہ یہ سب یعنی اِن کے پیر اور مرید سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق ہر سوموار کا روزہ رکھیں اور خاص طور پر جِس دِن کو اِنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن سمجھ رکھا ہے اُس دِن حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ڈھول ڈھمکا ، رقص وقوالی اور گانوں کے راگ لگا لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ذِکر کرنے کی بجائے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کرنے کی بجائے ، اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نام پر چندوں کے ذریعے ہر کس و ناکس کا مال کھانے کی بجائے روزہ رکھیں اور پھرلوگوں کے مال پر نہیں بلکہ ا پنے ہاتھ کی حلال کمائی سے اُسے افطار کریں ، لیکن !!! ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نفس پر بھاری ہے اور پہلے کام نفس کو محبوب ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نام لے کر وہ کام پورے کیے جاتے ہیں جِن کے ذریعے ذاتی خواہشات پوری ہوں،

جی ، میلاد منوانے اور منانے والوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ان خرافات کو جائز نہیں کہتے ، لیکن اپنی ہی سجائی ہوئی محفلوں میں کچھ نام ، اور کچھ انداز تبدیل کر کے کچھ اور طرح سے تسکین نفس کا سامان کر لیتے ہیں۔


0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔