میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں کہ ''' ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کِیا اور اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے ، پس اِس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعثِ ثواب ہے '''
جواب:
یہ بات صحیح البُخاری ، کتاب النکاح کے باب نمبر ٢٠ کی تیسری حدیث کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، اور یہ حدیث نہیں بلکہ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ
و ثُویبَۃٌ لِابی لھبٍ و کان ابو لھبٍ اعتقھا فارضعت النبيّ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، فلما مات ابو لھب اُرِیَہُ بعضُ اھلہِ بِشرِّ حِیبۃٍ ، قال لہ ُ : ما ذا لّقَیت َ قال ابو لھب : لم القَ بعدَکُم ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ بعتاقتی ثُویبَۃَ
اور اِس بات کو اِمام البیہقی نے سُنن الکبریٰ میں ، کتاب النکاح کے باب ''' ما جاء فی قول اللّہ تعالیٰ و إن تجمعوا بین الاختین ''' میں اِلفاظ کے معمولی سے فرق سے نقل کِیا ہے اُن کے نقل کردہ اِلفاظ یہ ہیں""" لم القَ بعدَکُم رخاءَ ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ مِنی بعتاقتی ثُویبَۃَ و اشارَ اِلیِ النقیرۃ التی بین الإبھام و التی تلیھا مِن الاصابع """ ،
اور اِمام ابو عوانہ نے اپنی مسند میں '' مبتداء کتاب النکاح و ما یشاکلہُ ''' کے باب ''' تحریم الجمع بین الاختین و تحریم نکاح الربیبۃ التی ہی تربیۃ الرجل و تحریم الجمع بین المراۃ و إبنتھا ''' میں اِن اِلفاظ کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا """ لم القَ بعدَکُم راحۃ ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ النقیرۃ التی بین الإبھام والتی تلیھا بعتقی ثُویبَۃَ """
سب سے پہلی اور بُنیادی بات یہ ہے کہ یہ بات حدیث نہیں ، بلکہ ایک تابعی کی بات ہے جو اِمام بُخاری رحمہ اللہ نے بلا سند بیان کی ہے ، جسے تعلیق کہا جاتا ہے ، اور یہ بات مجھ جیسا معمولی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی صحیح البخاری میں جو کچھ تعلیقاً روایت کیا ہے وہ ان کی شرائط کے مطابق صحیح نہیں ، چلیے قطع نظر اس کے کہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں صحیح تھی یا نہیں ، ذرا غور فرمائیے کہ اِس بات میں سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کے عذاب میں اپنی باندی آزاد کرنے کی نیکی کی وجہ سے کچھ نرمی کر دی ، جیسا کہ ابو طالب کے عذاب میں کمی کر دی گئی ، اِس بات سے کوئی بھی اِنکار نہیں کر سکتا کہ ابو لہب کافر تھا ، اور کفر کی حالت میں ہی مرا ، اور جب اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دینے والی اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کِیا تھا تو اِس لیے نہیں کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پیدا ہوئے ہیں ، بلکہ اِس خوشی میں کِیا تھا اُس کے فوت شُدہ بھائی عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا پیدا ہوا ہے ، اگر اُسے اپنے بھتیجے کے رسول اللہ ہونے کی خوشی ہوتی تو اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ ابو لہب پہلے اِیمان لانے والوں میں ہوتا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بڑے مخالفین میں ،
اِمام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اِس بات کی شرح کرتے ہوئے ''' فتح الباری شرح صحیح البُخاری ''' میں لکھا ''' السہیلی نے لکھا کہ یہ خواب عباس بن عبدالمطلب ( رضی اللہ عنہُ ) نے دیکھا تھا ''' پھر چند سطر کے بعد لکھا ''' یہ خبر مرُسل ہے یعنی عروہ بن الزبیر نے یہ بیان نہیں کِیا کہ اُنہوں نے یہ بات کِس سے سُنی ، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ خبر مُرسل نہیں ، پھر بھی اِس میں بیان کیا گیا واقعہ ایک خواب ہے اور جِس نے یہ خواب دیکھا ، خواب دیکھنے کے وقت وہ کافر تھا مُسلمان نہیں '''
اورمیں یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ُ نے یہ خواب اِسلام قبول کرنے کے بعد دیکھا تھا تو بھی خوابوں کے بارے میں اہلِ سُنّت و الجماعت کا فیصلہ یہ ہی ہے کہ خوابوں میں کِسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی ، یہ ایک دِینی مسئلہ ہے اور ایسا مسئلہ ہے جِس کا تعلق عقیدے اور عِبادت دونوں سے ہے ، دِین کے کِسی بھی مسئلے کا حکم جاننے کے لیے مندرجہ ذیل میں سے کِسی ایک چیز کی دلیل کا ہونا ضروری ہے :::
( ١ ) قرآن (٢) صحیح حدیث (٣) آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم ا جمعین ،،،
''' اَثرٌ''' کا مطلب ہے نشانی ، یا نقشِ قدم ، اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اقوال و افعال کو ''' مصطلح الحدیث ''' یعنی علمِ حدیث کی اصطلاحات میں''' آثار''' کہا جاتا ہے ، اور کچھ محدثین ''' آثار ''' کا اطلاق ''' حدیث ''' پر بھی کرتے ہیں ، اور اسکا عکس بھی استعمال ہوتا ہے ، (٤) اِجماع (٥) اِجتہاد یا قیاس:::
عِبادت اور عقیدے کے مسائل میں اِجتہاد یا قیاس کی کوئی گنجائش نہیں ، اِس کے لیے قرآن اور صحیح حدیث دونوں یا دونوں میں سے کِسی ایک میں سے نصِ صریح یعنی واضح دلیل کا ہونا ضروری ہے اگر قرآن اور حدیث میں سے کوئی صریح نص یعنی بالکل واضح جواب نہ مِل سکے تو پھر اِجماع اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف توجہ کی جاتی ہے ، اور اِن تمام مصادر میں ''' عید میلاد النبی ''' منانے یا کرنے کی کوئی علامت تک بھی نہیں ملتی ، کِسی بات کو اپنی مرضی کے معنی یا مفہوم میں ڈھالنے کی کوشش سے حقیقت نہیں بدلتی ، بات ہو رہی تھی دینی احکام کے مصادر کی ، اہلِ تصوف کی طرف ''' اِلہام یا خواب ''' کو بھی دینی حکم لینے کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، اور دلیل کے طور پر وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان کو پیش کرتے ہیں کہ ((((( الرؤیا الصالحۃ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ ::: اچھا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ))))) یہ حدیث یقینا صحیح ہے ، لیکن !!! یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں کہ اچھا خواب کِس کا ہو گا ؟ کیا ہر شخص کا خواب ؟ اور کیا ہر خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ سمجھا جائے گا ؟؟؟ آئیے اِن سوالات کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامینِ مُبارک میں سے ڈھونڈتے ہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:::
((((( الرؤیا الصالحۃ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ ::: اچھا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ))))) یہ حدیث یقینا صحیح ہے ، لیکن !!!
یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں کہ اچھا خواب کِس کا ہو گا ؟ کیا ہر شخص کا خواب ؟
اور کیا ہر خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ سمجھا جائے گا ؟
آئیے اِن سوالات کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامینِ مُبارک میں سے ڈھونڈتے ہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا((((( الرؤیا الحَسنۃ مِن الرجُلٌ الصالحٌ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ ::: کِسی اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ))))) صحیح البُخاری /حدیث٦٩٨٣/کتاب التعبیر/باب رقم ٢ کی پہلی حدیث
اور فرمایا ((((( رؤیا المؤمن جُز ءٌ مِن ستۃ و اَربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ ::: کِسی اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ))))) صحیح مُسلم ، /حدیث ٢٢٦٣ ،
اِن دونوں احادیث میں ہمارے مذکورہ بالا سوالات کے جوابات ہیں ، اور وہ یہ کہ نہ تو ہر کِسی کا خواب مانے جانے کے قابل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر خواب ، بلکہ صرف پرہیز گار ، اِیمان والے کا اچھا خواب ، کِسی کافر ، مُشرک ، بدعتی ، یا بدکار مُسلمان وغیرہ کا نہیں ،
اِمام ابن حجر نے صحیح البُخاری کی شرح ''' فتح الباری ''' میں اِس حدیث کی شرح میں اِمام القُرطبی کا یہ قول نقل کیا ''' سچا ، مُتقی ، پرہیز گار مُسلمان ہی وہ شخص ہے جِس کا حال نبیوں کے حال سے مُناسبت رکھتا ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ نے جِن چیزوں کے ذریعے نبیوں کو بُزرگی دی اُن میں سے ایک چیز غیب کی باتوں کے بارے میں کوئی خبر دینا ہے پس کِسی سچے ، مُتقی ، پرہیز گار مُسلمان کو اللہ اِس ذریعے بُزرگی دیتا ہے ( یعنی اُس کو سچا خواب دِکھاتا ہے ) ، لیکن ، کافر یا بدکار مُسلمان یا جِس کا حال دونوں طرف مِلا جُلا ہو ، ایسا شخص ہر گِز اِس بُزرگی کو نہیں پا سکتا ، اگر کِسی وقت کِسی ایسے شخص کو سچا خواب نظر بھی آئے ، تو اُس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی انتہائی جھوٹا آدمی بھی کبھی سچ بول ہی دیتا ہے ، اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ ہر وہ شخص جو غیب کی کوئی بات بتاتا ہے اُس کی بات نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے ، جیسا کہ جادوگر اور نجومی وغیرہ باتیں کرتے ہیں '''
پس یہ بات واضح ہو گئی کہ کِسی کافر ، مُشرک ، بدعتی ، یا بدکار مُسلمان کا سچا خواب اُس کی بُزرگی کی دلیل بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ اُسے دِین میں کِسی عقیدے یا عِبادت کی دلیل بنایا جائے ، سچے خواب تو یوسف علیہ السلام کے قیدی ساتھیوں اور اُس مُلک کے بادشاہ نے بھی دیکھے تھے اور وہ تینوں ہی کافر تھے ، اب اللہ ہی جانے عباس رضی اللہ عنہ ُ کا حالتِ کُفر میں دیکھا ہوا ایک خواب ''' عید مِیلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' منانے والوں کے لیے دلیل کیسے بنتا ہے ؟؟؟
اِس خواب سے زیادہ سے زیادہ اِس بات کی دلیل لی جا سکتی ہے کہ کِسی کافر کو بھی اُس کے اچھے عمل کا آخرت میں فائدہ ہو گا ، اور یہ دُرست ہے یا نہیں یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ، ہمارے لیے یہ بات صحیح احادیث کے ذریعے واضح ہو چکی ہے کہ کِسی سچے ، متقی ، پرہیز گار اِیمان والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر سچا خواب دِکھایا جائے تو نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے ، اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ شریعت کے حُکم لینے کے جِن ذرائع پر ہمیشہ سے اہلِ سُنّت و الجماعت کا اِتفاق رہا ہے اُن میں خوابوں یا اِلہامات کا کوئی ذِکر نہیں ۔
پچھلے چند صفحات میں ، میں نے کئی بار '''اہلِ سُنّت و الجماعت ''' کے اِلفاظ اِستعمال کیئے ہیں ، مُختصراً اِنکی وضاحت کرتا چلوں تا کہ پڑھنے والوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو ، اِنشاء اللہ ، ''' اہلِ سُنّت و الجماعت ''' اُن کو کہا جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کے پابند ہوتے ہیں اور اُس طرح پابند ہوتے ہیں جِس طرح کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت تھی ، اپنی مَن گھڑت عبادات یا اپنے مَن گھڑت عقائدیا اپنے مَن گھڑت افکار و تشریحات اختیار کرنے والے '''اہلِ سُنّت و الجماعت ''' نہیں ہوتے ، اور نہ وہ ہوتے ہیں جو قُرآن اور حدیث کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اُن کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کےلیے صحابہ رضی اللہ عنہم کا راستہ نہیں اپناتے بلکہ اُن کے اپنے ہی اِمام اور پیرانِ طریقت ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد اور تعصب کا شکار نہ ہوں اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکامات و فرامین کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و فعل کے مطابق سمجھیں ، اور جو کچھ اُس کے مطابق نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت میں اُسے ترک کر دیں ۔
====================================
0 تبصرے:
تبصرہ کریں ۔۔۔