عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی پہلی دلیل

عید میلاد منوانے اور منانے والے ہمارے کلمہ گو بھائی سورت ابراہیم کی آیت ٥ کے ایک حصے کو بطورِ دلیل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ یعنی" اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ "، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے ( اِن کی مراد یہاں عاشوراء کا روزہ ہے یعنی دس محرم کا روزہ ) اور چونکہ حضور پاک اللہ کی نعمت ہیں لہذا ہم حضور پاک کی ولادت کی یاد میں جشن کرتے ہیں '''

جواب:

مکمل آیت یوں ہے :::

((((( وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ::: اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو ، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ،اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں )))))

اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑھا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟ اور اگر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تفسیر کی معتبر ترین کتابوں میں اِسکی کیا تفسیر بیان ہوئی ہے تو اِن لوگوں کا یہ فلسفہ ہوا ہوجاتا ہے ۔

اِمام محمد بن احمد جو اِمام القُرطبی کے نام سے مشہور ہیں اپنی شہرہ آفاق تفسیر " الجامع لِاحکام القُرآن " میں اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

""" وقد تسمى النعم الأيام

" نعمتوں کو کبھی ایام بھی کہا جاتا ہے "

اور ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور مقاتل ( بن حیان ) نے کہا :

بوقائع الله في الأمم السالفة

" اللہ کی طرف سے سابقہ اُمتوں میں جو واقعات ہوئے"

اور سعید بن جبیر نے عبداللہ بن عباس سے اور اُنہوں نے اُبي بن کعب ( رضی اللہ عنہم ) سے روایت کِیا کہ اُبي بن کعب نے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ (((((إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فِي قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ ::: ایک دفعہ موسی (علیہ السلام ) اپنی قوم کو اللہ کے دِن یاد کروا رہے تھے ، اور اللہ کے دِن اُسکی طرف سے مصبتیں اور اُسکی نعمتیں ہیں))))) صحیح مسلم /کتاب الفضائل / باب من فضل الخضر علیہ السلام، اوریہ(حدیث )دِل کو نرم کرنے والے اور یقین کو مضبوط کرنے والے واعظ کی دلیل ہے ، ایسا واعظ جو ہر قِسم کی بدعت سے خالی ہو ، اور ہر گمراہی اور شک سے صاف ہو"""

اِمام ابن کثیر رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کی تفسیر میں اِمام مجاہد اور اِمام قتادہ کا قول نقل کِیا کہ اُنہوں نے کہا :

""" { وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ } أي:بأياديه ونعَمه عليهم، في إخراجه إياهم من أسر فرعون وقهره وظلمه وغشمه، وإنجائه إياهم من عدوهم، وفلقه لهم البحر، وتظليله إياهم بالغمام، وإنزاله عليهم المن والسلوى، إلى غير ذلك من النعم ::: { وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ } یعنی اِن کو اللہ کی مدد ا ور نعمتیں یاد کرواؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو فرعون کے ظلم سے نجات دِی ، اور اُن کے دشمن سے اُنہیں محفوظ کِیا ، اور سمندر کو اُن کے لیئے پھاڑ کر اُس میں سے راستہ بنایا اور اُن پر بادلوں کا سایہ کِیا ، اور اُن پر من و سلویٰ نازل کِیا ، اور اِسی طرح کی دیگر نعمتیں """ (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر)

غور فرمائیے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِس آیت میں اللہ کے دِنوں کی کیا تفسیر فرماتے ہیں ، کیا کہیں اُنہوں نے جشن میلاد منانے کا فرمایا یا خود منایا ؟ میلاد کے حق میں دلیل بنانے والے صاحبان کو اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین یاد کیوں نہیں آتے کہ (((( یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ O يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ::: اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، اللہ اور اُسکے رسول ( صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) سے آگے مت بڑہو اور اللہ ( کی ناراضگی ) سے بچو بے شک اللہ سُننے اور عِلم رکھنے والا ہے اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، نبی کی آواز سے آواز بلند مت کرو اور نہ ہی اُسکے ساتھ اُونچی آواز میں بات کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ))))) سورت الحجرات/ آیت 1-2

پھر یہ لوگ اِس آیت کے ساتھ دس محرم کے روزے کو منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں" وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ یعنی"اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کراؤ" کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے''

جی ہاں یہ درست ہے کہ بنی اِِسرائیل اُس دِن روزہ رکھا کرتے تھے جِس دِن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرعون سے نجات دی تھی اور وہ ہے دس محرم کا دِن ، اور بنی اِسرائیل اِس دِن روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ؟ عید مناتے ہوئے یا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ کام کرتے تھے جِس کا موسیٰ علیہ السلام نے اُنہوں حُکم دِیا ، ابھی ابھی اِس بات کے آغاز میں یہ لکھا گیا ہے کہ ''' اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑھا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟

ملاحظہ فرمائیے ، قارئین کرام ، آیت نمبر ٥ کی بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا (((((وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ O وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ O وَقَالَ مُوسَى إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ ::: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اللہ نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دِی جو تم لوگوں کی شدید عذاب دیتی تھی کہ وہ لوگ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ( تا کہ اُنہیں لونڈیاں بنا کر رکھیں ) اور اِس عذاب میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا O اور ( یہ نعمت بھی یاد کرو کہ ) جب تمہارے رب نے تمہیں یہ حُکم دیا کہ اگر تُم لوگ شُکر ادا کرو گے تو میں ضرور تُم لوگوں کو ( جان ، مال و عزت میں ) بڑہاوا دوں گا اور اگر تُم لوگ ( میری باتوں اور احکامت سے ) اِنکار کرو گے تو ( پھر یاد رکو کہ ) بلا شک میرا عذاب بڑا شدید ہے O اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تُم سب اور جو کوئی بھی زمین پر ہے ، کفر کریں تو بھی یقینا اللہ تعالیٰ ( کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ )غنی اور حمید ہے ))))) سورت ابراہیم

تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ لوگ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے !!! ''' عید ''' نہیں منایا کرتے تھے ،

اگر یہ لوگ اُن احادیث کا مطالعہ کرتے جو دس محرم کے روزے کے بارے میں تو اِنہیں یہ غلط فہمی نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ روزہ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے رکھا کرتے تھے : آیے ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں ،

(۱ ) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ ::: عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا کہ ((((( مَا هَذَا ؟ ::: یہ کیا ہے ؟))))) قَالُوا هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَى ::: تو اُنہیں بتایا گیا کہ '' یہ نیک دن ہے ، اِس دِن اللہ نے بنی اسرائیل کو اُنکے دشمن (فرعون ) سے نجات دِی تھی توموسیٰ (علیہ السلام)نے اس دن روزہ رکھا"، قَالَ ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ::: میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے ))))) فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ ::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا """ (صحیح البخاری/ کتاب الصیام /باب صوم یوم عاشوراء)

( ٢ ) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الْيَهُودُ عِيدًا ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ::: ابو موسی رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ''' دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( فَصُومُوهُ أَنْتُمْ ::: تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو ))))) (صحیح البخاری /کتاب الصیام/ باب صوم یوم عاشوراء)

اس حدیث مبارک میں ہمیں ی بھی پتہ چلا کہ خوشی کے مواقع کو اس طرح عید بنانا یہودیوں کی عادات میں سے ہے ، جس پر انکار فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خوشی کے شکر کے طور پر اللہ کی عبادت کی حکم دیا اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوئے ، یہودیوں ہی کی طرح عیدیں بنانے اور منانے کی اجازت نہ دی ،

( ٣ ) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ ''''''مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ """ (صحیح البخاری کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے '''''' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اِس دس محرم کے روزے کو کِسی بھی اور دِن کے (نفلی )روزے سے زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہنیے سے زیادہ ( فضیلت والا جانتے تھے ) یعنی رمضان کے مہینے کو ''''''

( ۴ ) ابو قتادہ رضی اللہ عنہُ ایک لمبی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ '''''' خلیفہ دوئم بلا فصل امیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے عاشوراء (دس محرم) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا ((( اَحتَسِبُ علی اللہِ أن یُکَفِّرُ السّنَۃَ المَاضِیَۃَ ::: میں اللہ سے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ (اس عاشوراءکے روزہ کے ذریعے) پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف فرما دے گا ))) '''''' صحیح مُسلم حدیث 1162/کتاب الصیام/باب36، صحیح ابن حبان /حدیث3236

( ٥ ) اُم المؤمنین عائشہ ، عبداللہ ابنِ عُمر ، عبداللہ ابنِ مسعود اور جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایات ہیں کہ :::

(ا) عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَرِهَ فَلْيَدَعْهُ ( صحیح مُسلم /کتاب الصیام/ باب صوم یوم عاشوراء)

'''''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یوم ءِ عاشورا کے روزے کے بارے میں فرمایا " اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے تو جوچاہے اِس دِن روزہ رکھے ا ور جو چاہے نہ رکھے ''''''

(ب‌) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَيَحُثُّنَا عَلَيْهِ وَيَتَعَاهَدُنَا عِنْدَهُ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ يَأْمُرْنَا وَلَمْ يَنْهَنَا وَلَمْ يَتَعَاهَدْنَا عِنْدَهُ ( صحیح مُسلم /کتاب الصیام/ باب صوم یوم عاشوراء)

'''''' رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیں دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے ، اور اِسکی ترغیب دِیا کرتے تھے ،اور اس کے بارے میں ہم سے عہد لیا کرتے جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں نہ اِسکا حُکم دِیا ، نہ اور نہ ہی اِس سے منع کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں ہم سے کوئی وعدہ لیا ''''''

( ٦ ) عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيٰ اللَّهُ عَنْهُمَا يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ """ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ ؟ """ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ((((( يَقُولُ هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ وَلَمْ يَكْتُبْ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ وَأَنَا صَائِمٌ فَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ ))))) """ (صحیح البخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء)

حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے اُس سال میں جس سال میں معاویہ رضی اللہ عنہُ نے حج کیا ، معاویہ رضی اللہ وعنہُ کو عاشوراء کے دن منبر پر یہ کہتے ہوئے سُنا کہ """ اے مدینہ والو تمہارے عُلماء کہاں ہیں؟ """ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو کہتے ہوئے سُنا :::

(((((یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا ، اور میں روزے میں ہوں ، تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے)))))

( ٧ ) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ((((( أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ ))))) (صحیح مسلم کتاب الصوم باب فضل صوم المحرم)

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت محرم کے روزوں میں ہے ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت رات کی نماز میں ہے)))))

اِن احادیث پر غور فرمائیے ، کہیں سے اِشارۃ ً بھی یہ ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِس آیت کو بنیاد بنا کر یہ روزہ رکھا تھا ، بلکہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِس روزے کی ترغیب تک بھی نہیں دی ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں ہے ، بلکہ ہمیں بڑی وضاحت سے اِس بات کا ثبوت مِلتا ہے کہ یہ روزہ ایامِ جاہلیت میں بھی رکھا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے اِس روزہ کو رکھا اور اِسکے رکھنے کا حکم بھی دِیا اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اِسکی ترغیب بھی نہیں دی جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں ہے ، رہا معاملہ اِس روزہ کو موسی علیہ السلام کے یومِ نجات کی خوشی میں رکھنے کا تو درست یہ کہ خوشی نہیں بلکہ شکر کے طور پر رکھا جاتا تھا ، اور اگر خوشی ہی کہا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ کِسی بات پر خوش ہو کر روزہ رکھا جائے ، لہذا اِن کو بھی چاہیئے کہ یہ جِس دِن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن مانتے ہیں ، حالانکہ وہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا ، اِس کا ذِکر آگے آئے گا اِن شاء اللہ ، تو اپنی اِس خام خیالی کی بنیاد پر اِن کو چاہیئے کہ یہ لوگ خود اور اِن کے تمام تر مریدان اُس دِن روزہ رکھیں ۔

مندرجہ بالا احادیث پر غور فرمایئے ، خاص طور پر پہلی حدیث پر تو ہمیں بالکل واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں جا کر اُنہوں نے یہودیوں کو اِس دِن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ " یہ کیا ہے "؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس سوال سے یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہجرتِ مدینہ سے پہلے اِس دِن جو روزہ رکھا کرتے تھے وہ موسی علیہ السلام کے یوم نجات کی خوشی میں نہ تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ جانتے بھی نہیں تھے کہ دس محرم موسی علیہ السلام کا یومِ نجات تھا ، اور یہ حدیث اِس بات کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عالم غیب نہیں تھے ، خیر یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ہے ۔

اور بات بھی بڑی مزیدار ہے یہ صاحبان شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ سورت اِبراہیم مکی سورت ہے سوائے دو اور ایک روایت میں ہے کہ تین آیات کے ، اور وہ ہیں آیت نمبر 28 ، 29 ، 30 ، مزید تفصیل کےلئیے ملاحظہ فرمائیے ، اِمام محمد بن علی الشوکانی کی تفسیر ''' فتح القدیر ''' اور اِمام محمد بن احمد القُرطبی کی تفسیر ''' الجامع لِاحکام القُرآن ''' ،

تو جِس آیت کو ہمارے یہ بھائی ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' کی دلیل بنا رہے ہیں اور اِس دلیل کی مضبوطی کےلئیے یوم ءِ عاشورا کے روزے کا معاملہ اِسکے ساتھ جوڑ رہے ہیں ، صحیح احادیث اور صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس آیت کا یوم ءِ عاشورا کے روزے سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے اِس دِن کے روزے کو موسی علیہ السلام کی نسبت سے نہ جانتے تھے ، اور اِس آیت کے نزول سے پہلے یہ روزہ قریش مکہ بھی رکھا کرتے تھے ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں اِس بات کا ذِکر صراحت کے ساتھ ملتا ہے ، فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ ،


0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔