عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی دسویں دلیل

میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں ''' ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت میں اُنکی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں ، اور جو ایسا نہیں کرتے اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کوئی مُحبت نہیں، وہ محروم ہیں '''، بلکہ اِس سے کہیں زیادہ شدید اِلفاظ اِستعمال کرتے ہیں ، جِن کو ذِکر کرنا میں مُناسب نہیں سمجھتا ،

جواب:

دِلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ، ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی بہت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دِین ہم تک پہنچانے کےلیے اُنہیں مبعوث فرمایا ، اور دِین دُنیا اور آخرت کی ہر خیر ہم تک پہنچانے کا ذریعہ بنایا ، لیکن جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دُنیا سے اُٹھا لیا ، وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم وفات پا چکے ، نزولءِ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ، تو ساری خوشی رخصت ہو جاتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کا غم اُن کی پیدائش کی خوشی سے بڑھ کر ہے ، کہ دِل نچڑ کر رہ جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن میں سے بنائے جِن کی زندگیاں اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کی عین اِتباع میں بسر ہوتی ہیں اور ہر بدعت سے ہمیں محفوظ فرمائے ، اُن سے نہ بنائے جنہیں بدعات پر عمل کرنے کی وجہ سے روزِ محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حوض مبارک سے ہٹا دِیا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُن کے لیے بد دعا کریں گے ،

چلتے چلتے یہ حدیث مبارک بھی ملاحظہ فرمائیے ، اور بدعتِ حسنہ کے فلسفہ پر غور فرمائیے :::

اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ نبي صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( اِنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ اَبداً لَیَرِدُنّ عَليّ اَقواماً اَعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فاَقولُ اِِنَّھُم مِنی ، فَیُقال ،اِِنکَ لا تدری ما اَحدَثُوا بَعدَکَ ، قَاَقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی ::: میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اُس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے ( پھر ) کبھی پیاس نہیں لگے گی ، میرے پاس حوض پر کچھ الوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے ( کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان کچھ (پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا ، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں ( یعنی میرے اُمتی ہیں ، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ ) کہے گا تُم نہیں جانتے کہ اِنہوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کیئے ، تو میں کہوں گا دُور ہو دُور ہو ، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی ))))) ،

و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً ، و اَسحقہُ اَبعَدُہ ُ ::: اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ::: سُحقاً یعنی دُور ہونا ، صحیح البُخاری/حدیث ٦٥٨٣ ، ٦٥٨٤/ کتاب الرقاق/ باب فی الحوض، صحیح مسلم / حدیث ٢٢٩٠، ٢٢٩١ /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم و صفاتہ ۔

محترم قارئین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِن فرامین پر ٹھنڈے دِل سے غور فرمائیے ، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے ، اور اللہ تعالیٰ نئے کام کرنے والوں کو حوضءِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ہٹوایں گے ، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذِکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی '''بدعتِ حسنہ '''کرنے والوں کو چھوڑ دِیا جائے ،،،، غور فرمائیے ،،، ، بدعت دینی اور بدعت دُنیاوی ، یا یوں کہیئے ، بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی''' بدعتِ حسنہ اورسیئہ''' کی تقسیم کو درست نہیں مانتا ،

بدعت کے موضوع پر الگ سے کچھ گفتگو ہو چکی ہے اورتحریری صورت میں بھی میسر ہے ، یہاں اس موضوع کو زیر بحث لا کر میں اپنی اس کتاب کے موضوع کو منتشر نہیں کرنا چاہتا ، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ """ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم """ کے معاملے کو سمجھنے کے لیے اور اسی نوعیت کے ہر معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یقینا بدعت کے بارے میں وہ سب معلومات ضرور جاننی اور سمجھنے چاہیں ،

کوئی اِن سے پوچھے تو ::::: کیا معاذ اللہ صحابہ رضی اللہ عنہُم اجمعین اور اُن کے بعد تابعین ، تبع تابعین اور چھ سو سال تک اُمت کے کِسی عالم کو کِسی اِمام کو ، نبی علیہ الصلاۃُ و السلام سے محبت نہیں تھی ؟ ؟؟

کیا مُحبت کے اِس فلسفہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم نہ سمجھ پائے تھے کہ وہ اِس بات کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی عید مناتے ، یا تابعین یا تبع تابعین ، یعنی سُبحان اللہ عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کو مُحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا وہ مفہوم سمجھ میں آ گیا جو درست ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین تبع تابعین چھ ساڑہے چھ سو سال تک اُمت کے عُلمااور ائمہ رحمہم اللہ جمعیاًبے چارے غلطی پر رہے ؟؟؟

اور مزید کہتا ہوں کہ :::

نہیں نہیں یہ عِشق نہیں ہے ، جمع خرچ ہے زُبانی ::: وہ کیا عِشق ہوا ، جِس میں محبوب کی ہے نافرمانی

حُب و وفاء کو دِی صحابہ نے نئی تب و تابِ جاودانی ::: اور تُمہارا عِشق ہے اُن کے عمل سے رُوگردانی

(توجہ کیجیے گاکہ ،،، ان اشعار میں لفظ عِشق کتاب کے موضوع کی مناسبت سے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ اس کے لغوی مفہوم کی نسبت سے )


0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔