جواب:
سورت اِبراہیم کی آیت ٢٨ یوں ہے ::: ((((( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ::: ( ( اے رسول ) کیا تُم نے نہیں ا ُن کو نہیں دیکھا جِنہوں نے اللہ کی نعمت کا اِنکار کِیا اور ( اِس اِنکار کی وجہ سے ) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتارا)))))
اللہ جانے اِن لوگوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا یہ قول کہاں سے لیا ہے کیونکہ تفسیر ، حدیث ، تاریخ و سیرت اور فقہ کی کم از کم سو ڈیڑھ سو معروف کتابوں میں مجھے کہیں بھی یہ قول نظر نہیں آیا ، البتہ تفسیر ابن کثیر میں اِمام ابن کثیر نے یہ کہا ہے کہ :::
"""وإن كان المعنى يعم جميع الكفار؛ فإن الله تعالى بعث محمدا صلى الله عليه وسلم رحمة للعالمين، ونعمة للناس، فمن قبلها وقام بشكرها دخل الجنة، ومن ردها وكفرها دخل النار::: یہ بات ہر کافر کےلیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام اِنسانوں کے لیے نعمت بنا کر بھیجا ، پس جِس نے اِسکو قبول کِیا اور اِس پر شکر ادا کیا وہ جنّت میں داخل ہو گا ، اور جِس نے اِس کو قُبُول نہ کِیا اور اِس کا اِنکار کِیا وہ جہنم میں داخل ہو گا ""
اللہ جانے اِمام ابن کثیر کے اِس مندرجہ بالا قول کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی طرف سے بیان کردہ تفسیر قرار دینا اِن کلمہ گو بھائیوں کی جہالت ہے یا تعصب ، اگر بالفرض یہ درست مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ قول عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما کا کہا ہوا ہے ، تو کہیں تو یہ دِکھائی کہ دیتا عبداللہ ابن عباس یا اُنکے والد یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہُ یا کِسی بھی اور صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن کِسی بھی طور پر ''' منایا ''' ہو ، اِس طرح تو اِنکے ابھی ابھی اُوپر بیان کردہ فلسفے کے مُطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کُفرانِ نعمت کیا کرتے تھے؟
====================================
0 تبصرے:
تبصرہ کریں ۔۔۔