عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی پانچویں دلیل

'''عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' منانے اور منوانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کا کہنا ہے کہ '''سورت یونس کی آیت نمبر ٥٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ملنے پر خوش ہونے کا حُکم دِیا ہے کیونکہ آیت میں اَمر یعنی حُکم کا صیغہ اِستعمال ہوا ہے اور حضور اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہیں لہذا اُن کی پیدائش پر خوشی کرنا اللہ کا حُکم ہے ، اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اِس حُکم پر عمل کرتے ہیں تو کیا غلط ہے ؟۔ '''

جواب:

سورت یونس کی آیت نمبر ٥٨ کا مضمون سابقہ آیت یعنی آیت نمبر ٥٧ کے ساتھ مِل کر مکمل ہوتا ہے اور وہ دونوں آیات مندرجہ ذیل ہیں :::

((((( يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ O قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ::: اے لوگو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نصیحت آ چکی ہے اور اور جو کچھ سینوں میں ہے اُسکی شفاء اور ہدایت اور اِیمان والوں کے لیے رحمت ۔ ( اے رسول ) کہیئے ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت ( سے ہے ) لہذا مسلمان اِس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا ) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے ) سے بہتر ہے )))))

اِس میں کوئی شک نہیں کہ آیت نمبر ٥٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت پر خوش ہونے کا حُکم دِیا ہے ، لیکن ! ! ! سوال پھر وہی ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین یا تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً اور اُنکے بعد صدیوں تک اُمت کے اِماموں میں سے کِسی نے بھی اِس آیت میں دیے گئے حُکم پر ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' منائی ؟ یا منانے کی ترغیب ہی دی ؟

آئیے دیکھتے ہیں کہ اِس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا ملتی ہے ؟ اگر میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے کلمہ گو بھائیوں نے اِس آیت کی تفسیر ، کِسی معتبر تفسیر میں دیکھی ہوتی تو پھر یہ لوگ اِس فلسفہ زدہ من گھڑت تفسیر کا شکار نہ ہوتے ، جِس کو اپنی کاروائی کی دلیل بناتے ہیں،

اِمام البیہقی نے''' شعب الایمان''' میں مختلف اَسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس اور اَبو سعید الخُدری رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ:::

"""قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا قال : فضل الله القرآن ، ورحمته الإسلام ::: قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا کے بارے میں کہا اللہ کا فضل قُرآن ہے اوراللہ کی رحمت اِسلام ہے""" (شعب الایمان باب فصل في التكثير بالقرآن والفرح به)

اور دوسری روایت میں ہے کہ:::

""" فضل الله الإسلام ، ورحمته أن جعلكم من أهل القرآن ::: فضل اللہ اِسلام ہے اور رحمت یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں قُرآن والوں ( یعنی مسلمانوں ) میں بنایا """ (شعب الایمان باب فصل في التكثير بالقرآن والفرح به)

اور ایک روایت ہے کہ ::: """ کتاب اللہ اور اِسلام اُس سے کہیں بہتر ہے جِس کو یہ جمع کرتے ہیں """

یعنی دُنیا کے مال و متاع سے یہ چیزیں کہیں بہتر ہیں لہذا دُنیا کی سختی یا غربت پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اِن دو نعمتوں کے ملنے پر خوش رہنا چاہیئے ،

اِمام ابن کثیر نے اِس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ اَمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ نقل کیا کہ

" جب عمر رضی اللہ عنہ ُ کو عراق سے خراج وصول ہوا تو وہ اپنے ایک غُلام کے ساتھ اُس مال کی طرف نکلے اور اونٹ گننے لگے ، اونٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ::: """ الحمد للہ تعالیٰ"""

تو اُن کے غلام نے کہا :::

""" یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے"""

تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا :::

""" تُم نے جھوٹ کہا ہے ، یہ وہ چیز نہیں جِس کا اللہ نے((((( قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مَِّا یَجمَعُونَ ::: ( اے رسول ) کہیئے ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت ( سے ہے ) لہذا اِس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا ) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے ) سے بہتر ہے ))))) میں ذِکر کیا ہے بلکہ یہ ((((( مِّمَا یَجمَعُون ::: جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ))))) میں سے ہے ۔ """

محترم قارئین ، غور فرمائیے اگر اِس آیت میں اللہ کے فضل اور رحمت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہوتے اور خوش ہونے سے مراد اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کی عید منانا ہوتی تو خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِسکا حکم دیتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کام ہمیں قولاً و فعلاً ملتا ، عُمر رضی اللہ عنہُ اپنے غُلام کو مندرجہ بالا تفسیر بتانے کی بجائے یہ بتاتے کہ فَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ سے مراد یہ مالِ غنیمت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہیں اور اُن کی پیدائش کی خوشی یا عند منانا ہے

اِس آیت میں """ فَلیَفرَحُوا """کو دلیل بنانے کے لیے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی کچھ بات لُغت کی بھی لاتے ہوئے """ فَلیَفرَحُوا """ میں استعمال کیئے گئے اَمر یعنی حُکم کے صیغے کی جو بات کرتے ہیں، آئیے اُس کا بھی لُغتاً کچھ جائزہ لیں ، آیت میں خوش ہونے کا حکم دِیا گیا ہے خوشی منانے کا نہیں ، اور دونوں کاموں کی کیفیت میں فرق ہے ، اگر بات خوشی منانے کی ہوتی تو """ فَلیَفرَحُوا """کی بجائے """ فَلیَحتَفِلُوا """ ہوتا ، پس خوش ہونے کا حُکم ہے نہ کہ خوشی منانے کا ،

کِسی طور بھی کِسی معاملے پر اللہ کی اجازت کے بغیر خوامخواہ خوش ہونے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا ، چہ جائیکہ خوشی منانا اور وہ بھی اسطرح کی جِس کی کتاب اللہ اور سنّت میں کوئی صحیح دلیل نہیں ملتی ۔

سورت القصص /آیت ٧٦ میں قارون کی قوم کا اُس کو نصیحت کرنے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں ((((( لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ::: دُنیا کے مال و متاع پر ) خوش مت ہو ، اللہ تعالیٰ خوش ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا )))))

پس یہ بات یقینی ہو گئی کہ ہم نے کہاں اور کِس بات پر اور کیسے خوش ہونا ہے اُس کا تعین اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اُن کے احکام مطابق کیا جائے گا ، نہ کہ اپنی مرضی ، منطق logic اور فلسفہ سے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی آیت ١٧٠ میں خوش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا :::

((((( فَرِحِینَ بِمَآ ءَ اتٰھُم اللَّہ ُ مِن فَضلِہِ ::: اللہ نے اُن لوگوں کو اپنے فضل سے جو کچھ دِیا ہے اُس پر وہ خوش ہوتے ہیں )))))

اور ہماری زیر بحث آیت میں بھی اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے عطاء کردہ چیزوں پر خوش ہونے کا حکم دِیا ہے ، خوش ہو کر کوئی نیا عقیدہ یا کوئی نئی عبادت یا کوئی نئی عادت اپنانے کا حکم یا اجازت نہیں دی ،

اِمام القرطبی نے ((((( قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خَیرٌ مِّمَا یَجمَعُونَ))))) کی تفسیر میں لکھا کہ:::

""" الفرح لذۃُ فی القلبِ بإدارک المَحبُوب ::: خوشی اُس کیفیت کا نام ہے جو کوئی پسندیدہ چیز ملنے پر دِل میں پیدا ہوتی ہے """

اور لغت کے اِماموں میں سے ایک اِمام محمد بن مکرم نے ''' لسان العرب ''' میں لکھا کہ ''' فرح ، ھو نقیض الحُزن ::: خوشی اُس کیفیت کا نام ہے جو غم کی کمی سے پیدا ہوتی ہے ''' اور شیخ محمد عبدالرؤف المناوی نے ''' التوقیف علیٰ مھمات التعریفات ''' میں لکھا کہ """ الفرح لذۃ فی القلب لنیل المشتھی

::: خوشی اُس لذت کا نام ہے جو کوئی مرغوب چیز حاصل ہونے پر دِل میں پیدا ہوتی ہے """

صحابہ کی تفسیر اور لغوی شرح سے یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ خوشی دِل کی کیفیت کا نام ہے کِسی خاص دِن کِسی خاس طریقے پر کوئی عمل کرنا نہیں ، سوائے اُس کے جِس کی اِجازت اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو ، اور جِس کام کی اِجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات ''' علم الاَصول الفقہ''' میں طے ہے ، جیسا چند صفحات پہلے اِس کا ذِکر کیا گیا ہے۔


4 comments:

  1. محترم عادل سہیل صاحب۔
    اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہاں لکھ دیجئے کہ آپ کو دنیوی مال و متاع کو تو ’’رحمت الہی‘‘ سمجھتے ہیں۔
    لیکن کیا آپ رحمت اللعالمین نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت نہیں سمجھتے ؟؟؟؟

    ReplyDelete
  2. آپ دیوبند مولوی لوگ حق جانتے ہوئے منافقت کرتے ہیں ۔
    کیا کسی بھی تفسیر میں رحمت و فضل سے مراد حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات نہیں لکھا؟
    پڑہیے تفسیر ابن عباس

    اس مسئلہ پر علامہ عبد الحق محدت دہلوی کا موقف کیوں چپھاتے ہو۔

    منافقت کی انتہا ہے۔

    ReplyDelete
  3. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  4. جو آیتِ مبارکہ زیر غور ہے
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے قرآن اور رحمت سے اَ حادیث مراد ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲/۳۲۰)
    بعض علماء نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت قرآنِ کریم۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(نساء ۱۱۳)
    ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔
    بعض نے فرمایا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل قرآن ہے اور رحمت حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۷)
    ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔
    اور اگر بالفرض اِس آیت میں متعین طور پر فضل و رحمت سے مراد سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مبارکہ نہ بھی ہو تو جداگانہ طور پر تواللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یقینا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل اور رحمت ہیں۔ لہٰذا فنِ تفسیر کے اس اصول پر کہ عمومِ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے ، خصوصِ سبب کا نہیں ، اس کے مطابق ہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ مبارکہ کے حوالے سے خوشی منائی جائے گی خواہ وہ میلاد شریف کرکے ہو یا معراج شریف منانے کے ذریعے، ہاں اگر کسی بدنصیب کیلئے یہ خوشی کامقام ہی نہیں ہے تو اس کا معاملہ جدا ہے، اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے۔

    ReplyDelete