عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منانے والوں کی گیارھویں دلیل

عید میلاد منوانے او ر پھر منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں ''''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے ۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہوخاص خاص اس دن بطور یادگار عید منانا ، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ۔

جواب:

عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کا جو اثر یہ صاحبان ذکر کرتے ہیں ، وہ واقعہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا ہے جیسا کہ کتب ستہ ، اور زوائد میں روایت ہے ، اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کے بارے میں یہ بات صرف ''' سنن الترمذی ''' میں روایت کی گئی ہے اور اِمام الترمذی نے خود کہا ہے کہ یہ روایت حسن غریب ہے ،

اصولاً ہونا یہ چاہیئے کہ جو روایت زیادہ صحت مند ہے اُس کو دلیل بنایا جانا چاہیئے ، لیکن کیا کہوں کہ ، صحیح البخاری اور صحیح مسلم کی روایت کو سرسری انداز میں '''مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ''' لکھنا ، کیا ثابت کرنے کو کوشش محسوس ہوتی ہے !!! جبکہ صاحب مرقاۃ نے تو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کے بعد ، پہلے امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا واقعہ بخاری کے حوالے سے ذِکر کیا ہے ، اور پھر طبرانی کے حوالے سے ، لیکن ہمارے یہ بھائی بات کو کاٹ چھانٹ کر ، آگے پیچھے کر کے کیوں لکھتے ہیں؟؟؟ دِلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ، جو نظر آتا ہے ہر صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے ۔

قطع نظر اِس کے کہ یہ واقعہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا ہے یا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ، غور کرنے کی بات یہ کہ ، یہودی کے جواب میں کیا اِن دونوں صحابیوں میں سے کِسی نے بھی یہ کہا کہ ہاں ہم بھی اِس دِن کو عید بنا لیتے ہیں ؟؟؟

کیا کِسی نے بھی یہ سوچا یا سمجھا کہ اگر یومِ عرفہ ، یوم عید ہو سکتاہے تو میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم والا دِن بھی عید ہو سکتا ہے ، یا جِس دِن کوئی خوشی یا کوئی نعمت ملی ہو اُس دِن عید منائی جا سکتی ہے ، تو خود سے اِس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟؟؟

تیسری ، چوتھی اور پانچویں دلیل کے جواب میں رحمت و نعمت ملنے پر عید منانے کے بارے میں پہلے بات کر چکا ہوں ۔

قارئین کِرام ، اِن دونوں صحابیوں رضی اللہ عنہما کے جواب پر غور فرمائیے ، یہودی نے کہا ''' اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اُس دِن کو عید بنا لیتے ''' اُنہوں نے اُس یہودی کو دِن گِنا کر بتایا کہ" ہمیں پتہ ہے کہ یہ آیت کِس دِن نازل ہوئی تھی لیکن ہماری عیدیں مقرر ہیں ، ہم اپنی طرف سے کوئی اور عید نہیں بنا سکتے "۔

مزید ، یہ کہ جلیل القدر محدث ملا علی القاری الحنفی رحمۃُ اللہ علیہ کی طرف سے لفظ ''' عید ''' ہر خوشی کے دِن کے لیے اِستعمال ہونے کا ذِکر کر کے اپنی عید میلاد کے لیے دلیل بنانا بڑا ہی عجیب و غریب معاملہ ہے ،

قطع نظر اِس کے کہ لفظ ''' عید ''' کا لغوی اور شرعی مفہوم کیا ہے؟

اور قطع نظر اِس کے کہ دِین کے کِسی کام ، عِبادت یا عقیدے کو اپنانے کے لیے اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے واضح حُکم درکار ہوتا ہے ، نہ کہ کِسی کی کوئی بات ، اور قطع نظر اِس کے کہ عید ہونا اور عید منانا دو مختلف کیفیات ہیں ، اور اِن کا مختلف ہونا ہمیں لُغت اور شریعت میں قولاً و فعلاً ملتا ہے ، یہ بحث پھر کبھی اِن شاء اللہ ،

میں یہاں صِرف اِس بات پر افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ عید میلاد منوانے والے بھائیوں نے کِس طرح علامہ ملا علی القاری رحمہُ اللہ علیہ کی بات کو نامکمل اور سیاق و سباق کے بغیر لکھ کر اپنی بات اور عمل کے جائز ہونے کی دلیل بنایا ہے ،

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح / کتاب الصلاۃ /باب الجمعۃ /فصل الثالث ، میں علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا:::

"قال الطیبی فی جواب ابن عباس للیہودیِّ إشارۃ إلی الزیادۃ فی الجواب یعنی ما تخذناہ عیداً واحداً بل عیدین وتکریر الیوم تقریر لاستقلال کل یوم بما سمی بہ واضافۃ یوم إلی عیدین کاضافۃ الیوم إلی الجمعۃ أی یوم الفرح المجموع والمعنی یوم الفرح الذی یعودون مرۃ بعد أخری فیہ إلی السرور قال الراغب العید ما یعاود مرۃ بعد أخری وخص فی الشریعۃ بیوم الفطر ویوم النحر ولما کان ذلک الیوم مجعولاً للسرور فی الشریعۃ کما نبہ النبی بقولہ أیام منی أیام أکلٍ وشربٍ وبعال صار یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ"

یہاں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں جِسے عید میلاد کی دلیل بنایا جائے ، اگر ایسا ہوتا تو علامہ علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ اِس کا ذِکر کرتے ، نہ کہ لفظ ''' عید ''' کا معنیٰ و مفہوم بیان کرنے پر اِکتفاء کرتے ، جبکہ علامہ صاحب ١٠١٤ہجری میں فوت ہوئے اور اُس وقت ''' عید میلاد ''' کی بدعت مُسلمانوں میں موجود تھی ، اور علامہ صاحب مسلکاً حنفی بھی تھے ، لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے یہاں اِس آیت اور عبداللہ ابن عباس یا عُمر رضی اللہ عنہم کے قول کو عید میلاد کی دلیل ہونے کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں کِیا ، افسوس صد افسوس ، ضد اور تعصب میں اپنے ہی مسلک کے عُلماء پر یوں ظلم کیا جاتا ہے کہ اُن کی باتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جِس طرح اُنہوں نے نہیں کہی ہوتِیں ،

علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا اِلفاظ کے کچھ حصے کو اپنی بات کی دلیل بنانے والے اگر پوری بات کو سامنے لائیں تو اُن کے ہر پیروکار پر واضح ہو جائے کہ کِس طرح عُلماء کی باتوں کو اپنی رائے اور بات کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ،

عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے مسلمان بھائی ، کم از کم یہ تو سوچیں کہ ، اگر اُن کی بیان کردہ منطق، یعنی ، ہر خوشی اور نعمت والے دِن کا عید ہونا ، درست ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اور یہ عُلماء کرام رحمہم اللہ ہر خوشی اور ہر نئی نعمت ملنے والے دِن کی عید مناتے ، اور شاید اِس طرح سال بھر میں سے آدھا سال عیدیں ہی رہتیں ، نبوت کے جھوٹے دعوی داروں کا خاتمہ ، زکوۃ کی ادائیگی سے اِنکار کرنے والے کا قلع قمع ، ہر نیا شہر ، ہر نیا مُلک فتح ہونا ، فوج در فوج لوگوں کا مسلمان ہونا یہ سب اللہ کی نعمتیں ہی تو تھیں ، غور تو کیجیئے کہ کتنی عیدیں ہوتیں ؟؟؟

لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین، صدیوں تک اُمت کے علماء و ائمہ رحمہم اللہ جمعیاً میں سے کِس نے ایسی کوئی بھی عید منائی ؟؟؟

میں اِس بات میں کوئی شک نہیں رکھتا کہ عید میلاد منوانے اور منانے والوں کی اکثریت یہ سب بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت میں کرتی ہے ، لیکن افسوس اِس بات کا ہوتا ہے کہ اُن کا ایک انتہائی نیک جذبہ غیر مُناسب طور پر اِستعمال ہو رہا ہے ، اوراُنہیں اُس کااحساس نہں ہو رہا ،

سوچیے تو ، محبت محبوب کی پسند کے مطابق اُس تابع فرمانی ہوتی ہے یا کچھ اور ؟؟؟

سوچیئے تو ، اگرروز محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آپ سے پوچھیں کہ دِین میں جو کام میں نے نہیں کِیا ، میرے خلفاء راشدین نے نہیں کِیا ، میرے صحابہ میں سے کِسی نے نہیں کِیا ، آپ نے وہ کام کیوں کِیا ؟؟؟

اللہ کے احکام اور میری باتوں کو جو تفسیر و تشریح میں نے بیان نہیں کی ، نہ قولاً نہ عملاً ، نہ میرے صحابہ میں سے کِسی نے بیان کی ، آپ نے وہ تفسیر و تشریح کیسے قُبُول کر لی ؟؟؟

اللہ کے کلام کی تشریح کی ذمہ داری تو اللہ نے مجھے سونپی تھی اور اللہ کے حُکم سے میں یہ ذمہ داری پوری کر آیا تھا ، پھر اللہ کے کلام کی نئی نئی تشریح اور عِبادت کے نئے نئے طور طریقے آپ نے کہیں اور سے کیوں لیے ؟؟؟

کیا جواب دیں گے ، یا رسول اللہ ہمارے عُلما کہا کرتے تھے ، یا ، ہماری کتابوں میں لکھا گیا تھا ، یا ، ہم سوچا کرتے تھے کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں ، اور کر لیا کرتے تھے ،

یقین مانئے اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اِس دُنیا فانی سے واپس بلوایا گیا ، اور اُن کے بعد کِسی پر وحی نازل نہیں ہوئی ، نہ ہی وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کوئی باطنی شریعت ، یا خاندانی شریعت چھوڑ کر تشریف لے گئے ، اللہ کا ہر حُکم صاف اور واضح طور پر قولاً و عملاً بیان فرما کر گئے ، اگر آپ اِس پر اِیمان رکھتے ہیں ،اور مجھے پوری اُمید ہے کہ یقینا اِیمان رکھتے ہیں ، تو پھر عید میلاد منانا اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات میں کہیں نہیں ہے ، تقاضاء محبت اطاعت و فرمانبرداری ہے ، جہاں جو بات اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات کی موافقت رکھتی ہے قُبُول فرمائیے ، اور جو نہیں رکھتی ترک کر دیجئےیہ ہی اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے حقیقی محبت ہے


1 comment:

  1. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete