::::::: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شرعی حیثیت :::::::

سابقہ مراسلات میں ، قُران و صحیح سنّت ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال ، تابعین تبع تابعین ، اُمت کے اِماموں رحہم اللہ تعالیٰ جمعیا ً کے اقوال و افعال کی روشنی میں اور تاریخ کا مطالعہ کرتے کرتے یہاں تک کی بات سے یہ واضح ہو جاتا کہ ،''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' منوانے اور منانے والے بھائیوں کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جِس کے ذریعے وہ اپنے اِس کام کو قُران اور سنّت میں سے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال میں سے ، یا کِسی ایک بھی صحابی رضی اللہ عنہُ کے کِسی قول و فعل سے ، یا اُمت کے کِسی عالم کے قول و فعل سے ثابت کر سکیں ، بلکہ پوری اُمت میں تقریباً ساڑھے تین سو سال تک کِسی عید میلاد کی کوئی خبر تو کیا ، بات تو کیا ، کہانی بھی نہیں ملتی ، اور پھر جو خبر ملتی ہے تو وہ بھی ایک ایسے گمراہ فرقے کے ایک حکمران کی بارے میں جِسے آج تک اہل سنّت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر متفقہ طور پر خارج از اِسلام جانتے ہیں ، یعنی فاطمی فرقہ جسے اب اِسماعیلی کہا جاتا ہے ،

پس یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کے دِن کو کِسی طور پر بھی ''' تہوار ، عید ''' بنانا دِین میں نیا کام ہے کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت میں ، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سُنّت میں ، بلکہ یہ کام سراسر خِلافِ سُنّت ہے اور جو بھی عقیدہ ، عِبادت ، دِین سے متعلقہ کام ، سُنّت کے خِلاف ہو ، سُنّت میں اُس کی کوئی دلیل نہ ملتی ہو ، اُسے ہی بدعت کہا جاتا ہے ، اور ہر بدعت گُمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں جانے والی ہے ، کِسی بدعت کو اچھا اور کِسی بدعت کو بُرا کہنے کی کوئی گنجائش نہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے ::: ((((( فَاِنَّ مَن یَعِیشُ مِنکُم فَسیَری اِختلافاًً کثیراً ، فَعَلِیکُم بِسُنّتِی وَ سُنَّۃ الخُلفاء الراشدینَ المھدیَّینَ ، عضُّوا علیھا بالنَواجذِ ، وَ اِیَّاکُم وَ مُحدَثاتِ الاَمُور، فَاِنَّ کلَّ بِدَعَۃٍ ضَلالَۃٌ ، وَ کلَّ ضَلالۃٍ فِی النَّارِ ::: پس تُم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا ، تو تُم پر میری اور ہدایت یافتہ ، ہدایت دینے والے خلفاء کی سُنّت فرض ہے اُسے دانتوں سے پکڑے رکھو ، اور نئے کاموں سے خبردار ، بے شک ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ، اور ہر گمراہی آگ میں ہے ))))) صحیح ابن حبان /کتاب الرقاق، صحیح ابن خُزیمہ /حدیث ١٧٨٥/کتاب الجمعہ /باب٥١،سُنن ابن ماجہ /حدیث ٤٢/باب ٦، مُستدرک الحاکم حدیث ٣٢٩ ، ٣٣١

::::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا :::::: ((((( مَن عَمِلَ عملاً لَیس عَلیہِ امرُنا فَھُو ردٌ ::: جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے معاملے کے مُطابق نہیں ہے وہ رد ہے ))))) صحیح البُخاری /کتاب بد ء الوحی / باب ٢٠ ، صحیح مُسلم /حدیث ١٧١٨ ،

یعنی ہر وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کاموں کے مُطابق نہیں وہ کام کرنے والے پر مردود ہے ، اور عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں ، بہنوں کے ہوا ئی ، فلسفانہ دلائل کی کوئی دلیل نہیں ، نہ قرآن میں ، نہ سُنّت میں ، نہ صحابہ کے قول و فعل میں ہے ، قران کی جِن آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جِن احادیث اور صحابہ کے جِن اقوال کو اپنے طور پر اپنی تفسیر اور اپنی شرح میں ڈھال کر ، دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اُن کا جواب گذر چُکا ہے ، اور مزید یہ کہ نہ ہی ہم اہلِ سُنّت و الجماعت کے کسی بھی اِمام کی طرف سے اِس کام یعنی عید میلاد منانے کا کوئی ذِکر وارد ہوا ہے ۔

اور تو آپ چھوڑئیے ، اُن کو دیکھیئے ، جِن کو کچھ مُسلمان""" اِما م اعظم """کہتے ہیں ، جب کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شان میں گُستاخی ہے کہ اُن کی بجائے کِسی اور کو اِمام اعظم کہا جائے ، اور ایسا کرنے والے میرے وہ کلمہ گو بھائی ہیں جو """ عِشق اور عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے واشگاف دعویٰ دار ہیں ، پھر جب انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کا دعویٰ ءِ """ عشق """ کے بطلان کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی وآٓلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو """ امام اعظم """ کہتے ہیں ، تو وہ اس دعوے سے بھی بڑھ کر عجیب و غریب تاویلات پیش کرتے ہیں ، اور عربی کی اس کہاوت کے مصداق دِکھائی دیتے ہیں کہ """ العُذر أقبح مِن الذِنب ::: بہانہ بازی گناہ سے زیادہ بری چیز ہوتی ہے """ ہے ، بہر حال اِس وقت ہمارا موضوع یہ نہیں ہے ،

جی تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اِمام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت علیہ رحمۃُ اللہ کی طرف دیکھیئے کیا اُن کو بھی قُرآن کی اِن آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیر کو روزہ رکھنے کی ، عباس رضی اللہ عنہُ کے ابو جھل کے بارے میں دیکھے ہوئے خواب کی ، زمانے اور وقت کے مُطابق محبت و عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اندز اظہار میں تبدیلی کرنے کی وہ وجہ اور ضرورت سمجھ نہیں آئی جو عید میلاد منوانے اور منانے والے اِن صاحبان جو کہ اِمام ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ کے پیروکارو ہیں ، کو آ گئی ، جبکہ ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ نہ تو حکومت کرنے والوں میں سے تھے اور نہ ہی جہاد کرنے والوں میں کہ اِن کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے """ میلاد """ کی طرف توجہ نہ فرما سکے ، جیسا کہ """ میلاد """ منوانے اور منانے والے بھائی فلسفہ پیش کرتے ہیں ؟؟؟ اور اگراِمام ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ کو بھی وہی سمجھ آئی تھی اور وہی ضرورت محسوس ہوئی تھی تو انہوں نے میلاد کیوں نہیں منائی ؟؟؟ یا کم از کم کوئی بات ہی """ میلاد """ کے بارے میں کہی ہوتی ؟؟؟ اور اگر اُنہیں سمجھ نہیں آئی تھی تو پھر اُن کی اِمامیت کیسی ؟؟؟ پھر تو جِن کو اُن کے بعد یہ سمجھ آئی وہ اُن سے بڑے اِمام ہوئے ؟؟؟ یعنی یہ شاگرد یا مُرید بھائی اپنے ہی اِمام کے اِمام ہو گئے ؟؟؟ اِنّا لِلَّہِ و اِنَّا اِلِیہِ رَاجِعُونَ ۔

اللہ امام ابو حنیفہ پر اپنی خاص رحمت نازل فرمائے ، چاروں اِماموں میں سے سب سے زیادہ مظلوم اِمام ہیں ، کہ اُن کے اپنے ہی پیروکار اُن سے اُن کی فقہ کے نام پر وہ کچھ منسوب کرتے ہیں جو اُن جیسے متقی اور صالح اِمام کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ،

( یہ مذکورہ بالا آخری پیرا گرافس میالد منوانے اور منانے والے بھائیو ں کی تیرہویں دلیل کا جواب بھی ہیں )

::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( فَاِنَّ اصدَقَ الحَدِیثِ کِتَاب اللَّہِ ، وَ خیرَ الھُدٰی ھُدٰی محمَّدٍ ، وَ شَرَّ الامورِ محدَثَاتھَا ، وَ کَلَّ محدَثَۃٍ بِدَعَۃٌ، وَ کلَّ بِدَعَۃٍ ضَلالَۃٌ ::: پس بے شک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھی ہدایت محمد کی ہدایت ہے ، اور کاموں میں سب سے بُرا کام نیا بنایا ہوا ہے ، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ))))) صحیح مُسلم / حدیث ٨٦٧،

::::::: ایک اور روایت جس میں مزید فرمایا کہ (ہر گمراہی جہنم میں جانے والی ہے ) کا ذکر ابھی تھوڑی دیر پہلے کر چکا ہوں

::::::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( مَن احدثَ فی اَمرنا ھذا مَا لَیسَ فِیہِ فَھو رَدٌ ::: جِس نے ہمارے اِس کام ( یعنی دِین )میں ایسا نیا کام بنایا جو اِس میں نہیں ہے تو وہ کام رد ہے ))))) صحیح البخُاری / حدیث ٢٦٩٧/کتاب الصلح /باب٥۔

غور فرمائیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس فرمان میں ہر وہ کام مردود قرار دِیا گیا ہے جو دِین میں نہیں ہے ، کچھ لوگ کہتے ہیں ::: جو کام دِین میں سے نہیں وہ بدعت ہو سکتا ہے ، اور فلان فلان کام تو دِین میں سے ہیں ، جیسے ذِکر کرنا ، عید منانا ، وغیرہ :::

جی ہاں یہ کام دِین میں سے ہیں ، لیکن جب یہ کام ایسے طور طریقوں پر کیے جائیں جو دِین میں نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ مذکورہ بالا حُکم لاگو ہوتا ہے ، ''' دِین میں سے ہونا ''' اور ''' دِین میں ہونا ''' دو مختلف کیفیات ہیں ، کِسی کام ( قولی و فعلی ، ظاہری و باطنی ، عقیدہ ، اور معاملات کے نمٹانے کے احکام وغیرہ )کا دِین میں سے ہونا ، یعنی اُس کام کی اصل دِین میں """ جائز """ ہونا ہے ، اور کِسی کام کا دِین میں ہونا ، اُس کام کو کرنے کی کیفیت کا دِین میں ثابت ہونا ہے ،

مَن گھڑت ، خود ساختہ طریقے اور کیفیات دِین میں سے نہیں ہیں ، ذِکر و اذکار ، عید ، صلاۃ و سلام ، یہ سب دِین میں تو ہیں ، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ''' اِن کو کرنے کی کون سی کیفیت اور ہیئت دِین میں ہے ؟؟؟'''

قُران کی آیات کا اپنی طرف سے تفسیر و شرح کرنا ، ، صحیح ثابت شدہ سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کی موافقت کے بغیر اپنی طرف سے معنی و مفہوم نکالنا اور اُس کو بُنیاد بنا کر عِبادات و عقائد اخذ کرنے سے کوئی کام عبادت اور کوئی قول و سوچ عقیدہ نہیں بن سکتے ، نہ ہی کچھ حلال و حرام کیا جا سکتا ہے ، نہ ہی کچھ جائز و ناجائز کیا جا سکتا ہے ، نہ ہی کسی کو کافر و مشرک و بدعتی قرار دیا جا سکتا ہے ، اور نہ ہی ایسے بلا دلیل اور ذاتی اراء و فہم پر مبنی اقوال و افعال و اَفکار دِین کا جُز قرار پا سکتے ہیں ، وہ یقینا دِین میں نئی چیز ہی قرار پائیں گے ، جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بدعت قرار فرمایا ہے ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے مذکورہ بالا اِن فرامین کے بعد دِین میں کِسی بھی نئے کام یعنی بدعت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ، ''' ہر ''' بدعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے گمراہی قرار دِیا ہے ، کِسی بدعت کو اچھا یعنی بدعتِ حسنہ کہہ کر جائز کرنے کی کو ئی گنجائش نہیں ، اور میں کہتا ہوں کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سئیہ کی تقسیم بذات خود ایک بدعت ہے ۔

اِمام الالکائی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا کہ :::

((((( کُلّ بدعۃ ضلالۃ و اِن رآھا الناسُ حسنہ ::: ہر بدعت گمراہی ہے خواہ لوگ اُسے اچھا ہی سمجھتے ہوں))))) ،صحابہ ر ضی اللہ عنہم سے اِس موضوع پر بہت سے فرامین صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہیں ، اِنشاء اللہ کبھی اُن کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی سعی کروں گا ،

اِمام الشاطبی رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب ''' الاعتصام ''' میں ابن ماجشون سے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے اِمام مالک علیہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ ''' جِس نے اِسلام میں نیا کام گھڑا اور ( اُس کام کو ) اچھی بدعت سمجھا تو گویا اُس نے یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ((((( الیَومَ اَ کمَلت لَکُم دِینکُم ::: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مُکمل کر دِیا )لہذا جو اُس دِن ( یعنی جِس دِن آیت نازل ہوئی ))))) لہذا جو اس دِن دین نہیں تھا(جب دِین مکمل ہوجانے کے بارے میں یہ اللہ کا یہ فیصلہ نازل ہوا ) وہ آج دِین نہیں ہو سکتا '''

بدعت کے بارے میں کچھ بات دسویں دلیل کے جواب میں کی جا چکی ہے ۔


0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔