:::::: آخری بات :::::::

محترم قا رئین ؛ اللہ تعالیٰ کے حُکم سے جِن کو سمجھ آنا ہو گی وہ اب تک یہ سمجھ چکے ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش کے دِن یا کِسی بھی اور خاص واقعہ رونما ہونے کے دِن کو کِسی بھی طور پر ''' تہوار ، عید ''' بنا کر منانا اِسلامی طریقہ نہیں ، اور جب یہ اِسلامی طریقہ نہیں تو آپ خود ہی بتائیے یہ کام دِین کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟ اور اگر دِین کا حصہ نہیں اور یقینا نہیں تو اِس پر اجر و ثواب کہاں ؟؟؟ بلکہ دِین سمجھ کر کرنے والے پر عتاب ضرور ہو گا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے صاف اور صریح احکامات کی خلاف ورزی کر رہا ہے ، جیسا کہ جلیل القدر تابعی سعید بن المُسیب رحمہُ اللہ کا فتویٰ ہے ،

جو کہ اِمام البیہقی نے اپنی '''سنن الکبری ''' میں صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا کہ :::

''' سعید بن المُسیب نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر طلوع ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑہتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع اور سجدے کرتا ہے تو سعید نے اُسے اِس کام سے منع کیا ،

اُس آدمی نے کہا """ یا ابَا مُحَمَّدٍ یُعَذِّبُنِی اللَّہ ُ عَلٰی الصَّلَاۃِ ::: اے ابا محمد کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا ؟ """ تو سعید رحمۃُ اللہ علیہ نے جواب دِیا """ لَا وَلَکِن یُعَذِّبُکَ اللہ بِخِلَافِ السُّنَّۃِ ::: نہیں لیکن تمہیں سُنّت کی خِلاف ورزی پر عذاب دے گا """ سنن البیہقی الکبریٰ / حدیث٤٢٣٤ /کتاب الصلاۃ /باب ٥٩٣ مَن لم یصل بعد الفجر إلا رکعتی الفجر ثم بادر بالفرض ، کی آخری روایت ، اِمام الالبانی نے "اِرواء الغلیل جلد ۲ ، صفحہ ۲۳۴ " میں اِس روایت کو صحیح قرار دِیا ،

قارئین کرام ، یہ میرا نہیں ، دو چار سو سال پہلے بنے ہوئے کسی """ گستاخ فرقے """ کا نہیں ، ایک تابعی کا فتویٰ ہے ، اِس پر غور فرمائیے ، اور بار بار فرمائیے ، اتباع سُنّت ، محبت و عظمتِ رسول کے اظہار کا صحیح اور ہمیشہ سے انداز ہے نا کہ کچھ اور ،

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ہر ہر سُنّت کو پہچاننے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اُس کام کو جاننے اور پہچاننے اور اُس سے بچنے اور کم از کم اُس پر اِنکار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو سُنّت کے خِلاف ہے ۔

میں نے بدعت کے موضوع کو وقت اور جگہ کی کمی کی وجہ سے طویل نہیں ہونے دِیا ، اگر کِسی پڑہنے والے کے دِل و دِماغ میں کوئی سوال یا شک ہو تو میری درخواست ہے کہ وہ خاموش نہ رہے بلکہ اپنے سوال یا شک کا اظہار کرے ، تا کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اُس کا شک رفع کیا جائے ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ثبوت میں ، پہلے ذکر کی گئی باتوں کے علاوہ ، اگر کسی کے پاس ، قُران ، صحیح ثابت شدہ سُنّت ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال میں سے کوئی ثبوت ہو تو عنایت فرمائے ، اِن مندرجہ بالا تین کسوٹیوں ، پر جو بات پوری نہیں اترتی وہ """ اہل سُنّت و الجماعت """ کے لیے قابل قبول نہیں، اور یہ ہی منہج اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے ۔ والسلام علیکم۔

طلبگارِ دُعاء آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ،

====================================


2 comments:

  1. جذاكم الله خيرا
    dxbgraphics

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    و ایاک یا اخی الکریم ، و السلام علیکم

    ReplyDelete